اگر اجازت ہو

 


میرا وجود میری روح پر ہوا بھاری
کہ جیسے جرم سرِعام کیا ہو میں نے۔

گواہ کوئ نہیں اور میںں وہ مجرم ہوں
گناہ عشق میرا اور سزا تنہا ئ۔

کتابِ روح کا ورق ورق خا لی ہے
کیوں زندگی کو ہم نے دیکھا نہیں جی کے۔  


سراب تھا ، عزاب تھا 
میری زندگی کا نصاب تھا
میرے ساتھ تھا پر الگ سا تھا
کمال اسکا جواب تھا۔

Comments